Friday, December 11, 2009

کچھوا اور خرگوش

 کچھوا اور خرگوش




 ايک تھا کچھوا، ايک تھا خرگوش، دونوں نے آپس ميں دوڑ کي شرط لگائي۔ کوئي کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کيوں لگائي؟ کيا سوچ کر لگائي؟ دنيا میں احمقوں کي کمي نہیں۔ ايک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں ۔ طے يہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نيم کے ٹيلے تک پہلے پہنچے وہ ميري سمجھا جائے۔ اسے اختيار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔
دوڑ شروع ہوئي۔ خرگوش تو يہ جا وہ جا۔ پلک جھپکنے ميں خاصي دور نکل گيا۔ مياں کچھوے وضعداري کي چال چلتے منزل کي طرف رواں ہوئے، تھوڑي دور پہنچے تو سوچا بہت چل لئے اب آرام بھي کرنا چاہئيے۔ ايک درخت کے نيچے بيٹھ کر اپنے شاندار ماضي کي يادوں میں کھوگئے جب اس دنيا میں کچھوے راج کيا کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطيفہ ميں بھي ان کا بڑا نام تھا۔ يونہي سوچتے ميں آنکھ لگ گئي۔ کيا ديکھتے ہيں کہ خود تو تخت شاہي پر بيٹھے ہيں۔ باقي زميني مخلوق، شير چيتے، خرگوش آدمي وغيرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہيں يا فرشي سلام کر رہے ہيں۔ آنکھ کھلي تو ابھي سستي باقي تھي۔ بولے ابھي کيا جلدي ہے ؟
اس خرگوش کے بچے کي کيا اوقات ہے ميں بھي کتنے عظيم ورثے کا مالک ہوں؟ واہ بھئي واہ ميرے کيا کہنے۔
جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے جب جي بھر کے سستالئے تو پھر ٹيلے کي طرف رواں ہوئے ، وہاں خرگوش کو نہ پايا بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دي کہ واہ رے مستعدي ميں پہلے پہنچ گيا۔ بھلا کوئي ميرا مقابلہ کر سکتا ہے؟
اتنے ميں ان کي نظر خرگوش کے ايک پلے پر پڑي جو ٹيلے کے دامن ميں کھيل رہا تھا۔ کچھوے نے کہا اے برخوردار تو خرگوش خاں کو جانتا ہے؟
خرگوش کے بچے نے کہا جي ہاں جانتا ہوں ميرے ابا حضور تھے معلوم ہوتا ہے ، آپ ہيں وہ کچھوے مياں جنہوں نے ابا جان سے شرط لگائي تھي ۔ وہ تو پانچ منٹ ميں يہاں پہنچ گئے تھے۔
اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کرگئے۔ جاتے ہوئے وصيت کر گئے تھے کہ کچھوے مياں آئیں تو ان کے کان کاٹ لينا۔
اب لائيے ادھر کان۔
کچھوے نے فورا اپنے کان اپنے سري خول کے اندر کر لي۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔


No comments:

Post a Comment